يوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
اک ذرا افسردگي تيرے تماشائوں ميں تھي
پا گئي آسودگي کوئے محبت ميں وہ خاک
مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحرائوں ميں تھي
کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئي پسند
پردہ انگور سے نکلي تو مينائوں ميں تھي
حسن کي تاثير پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتني ناداني جہاں کے سارے دانائوں ميں تھي
ميں نے اے اقبال يورپ ميں اسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سيمائوں ميں تھي