ٹارگٹ کلنگ کراچی کا مقدر
کراچی میں ہر اک ، ہر پل ’’ٹارگٹ‘‘ ہونے سے ڈرتا ہے
کھلونا ہے وہ مٹی کا ،’’یوں‘‘ فنا ہونے سے ڈرتا ہے
شہر کے اک ویران گوشے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی لاشوں کے درمیاں ، بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
عجب ہے زندگی کی قید میں اس شہر کا باسی
رہائی مانگتا ہے اور رہا ہونے سے ڈرتا ہے
جو پوچھا آپ نے گھر کا پتا میرے شریف انساں
کراچی میں ہر اک شریفوں کو بُلانے سے ڈرتا ہے
جماعت کوئی بھی ہو ، کوئی بھی کیسا بھی مُہرہ ہو
شہر کو بند کرانے ، خود کو جلوانے ، مروانے سے ڈرتا ہے
’’ٹارگٹ کلنگ ‘‘کے نام پر ہر بد قماش شہری
شہر میں اپنا بدلہ عام کرکے خود فنا ہونے سے ڈرتا ہے
ملیر ، ناتھا خان ، انچولی ، بلاول ہاؤس تو اِک جانب
کراچی کا بندہ اپنے گھر باہر آنے سے ڈرتا ہے
حمیدیؔ یہ نا معلوم افراد کون ہوتے ہیں ؟
جن کے نام بتانے سے ہر شناسا ہی ڈرتا ہے