پوچھیں قصور اپنا
Poet: Kaiser Mukhtar By: Kaiser Mukhtar, HONG KONGپوچھیں قصور اپنا یہ اجازت کہاں ہمیں
بولیں کچھ ان کے آگے یہ ہمت کہاں ہمیں
آوارگی دشت و جبل کے بعد د یکھئے
لے جائے گی یہ حالت و حشت کہاں ہمیں
بھائی نہ ہم کو آج تک کسی کی دوستی
راس آئے گی یہ پیار کی دولت کہاں ہمیں
سینے کے زخم دھل نہ سکےعمر بھر کا روگ
اوروں کے زخم د ھوئیں یہ فرصت کہاں ہمیں
اٹھوا نہ دیں وہ محفل سے تو اور کیا کریں
آداب محفل کی ہے عادت کہاں ہمیں
لکھتے ہیں ہم تو شعر دل لگی کے واسطے
ہے شہرت دنیا کی ضرورت کہاں ہمیں
اس دشت میں کھویا تھا اک چہرہ گلاب سا
ویرانے ا ب ملے گی وہ صورت کہاں ہمیں
کتابوں کے سوکھے پھولوں نے دی تھی جو کبھی
گلستاں میں ملے گی وہ سنگت کہاں ہمیں
یہ تو ہے گرفتار محبت کا ا حتجاج
ان کی بے رخی کی شکایت کہاں ہمیں
بارے اس کے ہم نے سنا تو بہت ہے
مل پائے گی لیکن وہ جنت کہاں ہمیں
ہم جل چکے ہیں آتش عشق میں اتنے
اب جلا سکے گی آتش قیامت کہاں ہمیں
کرم ہے جن پہ ان کا وہ اور ہیں قیصر
ملے گی ان کی نظر عنایت کہاں ہمیں
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے







