اس آسماں سے کہہ دو نہ برسائے آتش
ہے دل میں بہت پیاس نہ بھڑکائے آتش
جذبہ دل کو بہت ہے سنبھالا ہم نے
یہ حسیں رُت نہ کہیں اس کو لگائے آتش
ابر آفاق سے ٹپکا تو شعلہ بھڑکا
دیکھ آگئی برسات میں ادائے آتش
بھڑک اٹھے تو پھر بجھنے ہی نہ پائے گی
نہ دے آفاق تو مجھ کو سزائے آتش
ابر برسا تو پھر روک نہ پایا کوئی
کھو گیا دل تو ہوئے ہم بھی فدائے آتش
جلن سینے میں جو اٹھےتو بجھ پائے کیونکر
پی کے مے خانہ د یوانہ بجھائے آتش
آتش عشق پہ کب زور چلا ہے قیصر
دل میں بھڑکے تو پھر بجھنے نہ پائے آتش