چراغ_ شب ہیں ہمیں صح وتک ہی جلنا ہے
خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھرنا ہے
سفر کٹھن ہی نہیں جبرناروا بھی ہے
مگر امید_سحر لے کے آگے بڑھنا ہے
کبھی تو بستی میں اترے گی روشنی یارو
کبھی تو ظلمت_شب نے گزر ہی جانا ہے
ملیں ہیں لمحے خوشی کے وہی غنیمت ہیں
اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے
یہ مات کم تو نہیں ہے مجاز دشمن کی
حسد کی آگ اسے عمر بھر ہی جلنا ہے