چلتے چلتے
جانے وہ کیوں
گھر کا رستہ بھول گئ
اس نے دیکھا
اک جنگل میں گھور اندھیرا
سناٹے میں تنہائی ہے
ردح تک کانپ اٹھی ہے جس میں
ایسی وحشت چھائی ہے
کانٹوں بھرا رستہ ہے سارا
بے پتوں کے سارے پودے
ہر اک شاخ پہ سانپ اور بچھو
ہر جھاڑی کے جھنڈ میں چھپ کر
ایک درندہ بیٹھ رہا ہے
اس سے آگے
روشن خیالی کی وادی میں
مغرب نامی جادوگر ہے
مت جانا تم آگے لڑکی
لوٹ آؤ
پاؤں لہوں سے بھر جائیں گے
زہریلے سانپوں کے ڈنک
روح کے اندر اتر
جائیں گے
تیرے گھر کے سارے اپنے
جی نہ سکیں گے
مر جائیں گے