چلے آتے ہیں وہ بے حجاب انداز حجابانہ سے
پاتے ہیں حواس سبھی ساقی کے میخانہ سے
چھوتے ہیں دل وہ کچھ اس انداز بااثرانہ سے
ملتا ہے کوئی ساحل جب بحر بے کنارانہ سے
دیکھا ہے جب سے انہیں چشم محرمانہ سے
گیاہوہے عشق سا گناہ دل مجرما نہ سے
نہیں ہے جدا تری جدائی مرگ نا گہانہ سے
بچھڑتا ہے مرنے والا زندگی کے آشیانہ سے
دل ہے گھر اس کا آیا ہے جو لا مکانہ سے
مبرا ہے جو کسی پتھر کے عبادت خانہ سے
جب سے پیاہے جام انکے دست مہربانہ سے
بھر لیا ہے دل کو سوز حب والہانہ سے
کرتے ہیں وہ محوکچھ اس طرز عجائبانہ سے
مست بےخود ہیں ہم انکے سحر دارانہ سے
پایاجب سے وہ بے نشاں اس مردقلندرانہ سے
تو پہچان لیا ہے خود کو معیار عاشقانہ سے
عشق ہوا ہوں خاکی اس ہستی غائبانہ سے
کبھی جوآتا نہیں عاجز اس بندہ عاجزانہ سے