کاش صحرا کی حقیقت کو وہ سمجھا ہوتا
آخری اشک نے اک بار تو سوچا ہوتا
کس طرح اُجڑی ہے ہر خواب کی تعبیر یہاں
گھر کے بھیدی نے مرا گھر تو نہ لوٹا ہوتا
وہ مجھے چاہے نہ چاہے مری خواہش ہی رہی
وقتِ رُخصت ہی کو ئی میرا مسیحا ہوتا
خواہش زر بھی نہیں خواہشِ دُنیا بھی نہیں
بام پر میرے مقدر کا ستارہ ہوتا
منتظر آنکھ تری دید سے محروم رہی
دشتِ امکان میں کچھ دیر تو ٹھہرا ہوتا
جرمِ اُلفت کی سزا یہ ہے کہ میں تنہا ہوں
میرے زخموں کو تو اس شخص نے دیکھا ہوتا
اب تو مشکل ہے بہت درد یہ جھوٹے دل کا
کچھ سخن ایسا بھی ہوتا جو شناسا ہوتا
خوف کھاتی رہی میں دن کے اُجالوں میں صدفؔ
میری ہستی سے شبِ غم میں اُجالا ہوتا
ضبط گریہ کی حدیں ختم ہوئی تھیں میری
اشک یوں چشمِ تماشا سے نہ چھلکا ہوتا