ریشم نے آگ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
پتنگے نے چراغ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
پتا ہے موت ہے پھر بھی جینے کی وجہ ہے
سپیرے نے ناگ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
یہ دنیا ہے اور اِس دنیا داری کی خاطر
کانٹوں نے باغ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
سُروں میں مَن کو بھاتا ہے، بس درد بھرا سنگیت
دُکھوں نے راگ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
کیچڑ میں کھِل رہے ہیں کنول کے پھول صاحب
عزت نے داغ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
سفر طویل ہے زندگی کا، چہرے بدلتے رہیں گے
سمندر نے جھاگ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
مخالف رہتے ہیں اکثر مگر پھر بھی ضروری ہے
دل نے دماغ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے
زباں کاٹ دو جذبات پھر بھی بولیں گے “عاقل”
آواز نے کاگ سے رشتہ بنا کر رکھنا ہے