کوئی بستی نہ کوئی گھر اپنا
ہے فسانہ یہ مختصر اپنا
ان کے آنے سے ہو گیا آباد
کتنا ویران تھا یہ گھر اپنا
پر خطر راستوں میں اے ہمدم
کون بنتا ہے ہم سفر اپنا
مدتوں سے ہیں رنج و غم مہمان
کس نے بتلایا ان کو گھر اپنا
مل گئ مجھ کو منزل مقصود
ہو گیا ختم اب سفر اپنا
آپ کی ہر ادا پہ مرتی ہوں
ورنہ کیا حق ہے آپ پر اپنا
کوئی تو پوچھتا کہ کیسے ہو
کوئی تو ہوتا ہمسفر اپنا
مے کدہ بھی عزیز اب وشمہ
دیر و کعبہ سے بھی گزر اپنا