غم سے کیوں گھبرا کے ہم جینے کی عادت چھوڑ دیں
کس طرح ہم زندگی کی چاہ و حسرت چھوڑ دیں
مٹ چکی ہے گو زمانے سے شرافت آج کل
اِس کا مطلب یہ نہیں ہم بھی شرافت چھوڑ دیں
دوستی کے پیرہن میں دشمنوں سے کہہ دیا
آپ میرے دل کی گلیاں میری جنت چھوڑ دیں
مال و زر سے کس نے چاہت کو خریدا ہے کبھی
بخدا یہ سو چنا بھی اہلِ ثروت چھوڑ دیں