چیر کے سال میں دو بار زمیں کا سینہ
دفن ہو جاتا ہوں
گدگداتے ہیں جو سورج کے سنہرے ناخن
پھر نکل آتا ہوں
اب نکلتا ہوں تو اتنا کہ بٹورے جو کوئی دامن میں
دامن پھٹ جائے
گھر کے جس کونے میں لے جا کے کوئی رکھ دے مجھے
بھوک وہاں سے ہٹ جائے
پھر مجھے پیستے ہیں، گوندھتے ہیں، سینکتے ہیں
گوندھنے سینکنے میں شکل بدل جاتی ہے
اور ہو جاتی ہے مشکل پہچان
پھر بھی رہتا ہوں کسان
وہی خستہ، بد حال
قرض کے پنجۂ خونیں میں نڈھال
اس درانتی کے طفیل
کچھ ہے ماضی سے غنیمت مرا حال
حال سے ہوگا حسیں استقبال
اٹھتے سورج کو ذرا دیکھو تو
ہو گیا سارا افق لالوں لال