کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

Poet: فیض احمد فیض By: Sam, Sargodha

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں

بہار آئے گی جب آئے گی یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں

تری نظر کا گلہ کیا جو ہے گلہ دل کا
تو ہم سے ہے کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں

نہیں شراب سے رنگیں تو غرق خوں ہیں کہ ہم
خیال وضع قمیص و لبادہ رکھتے ہیں

غم جہاں ہو غم یار ہو کہ تیر ستم
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

جواب واعظ چابک زباں میں فیضؔ ہمیں
یہی بہت ہیں جو دو حرف سادہ رکھتے ہیں

Rate it:
Views: 2008
01 Oct, 2021
More Faiz Ahmed Faiz Poetry