کوئی کاش افطاری کی کال دے
میرے دل کے ارماں نکال دے
سبھی نعمتیں ہوں بہم وہاں
نہ کمی کا مُجھ کو ملال دے
آئے دسترخوان پہ ہی موت گر
ملک الموت بڑھ کر خلال دے
میں کھاؤں دوسروں کا مال خوب
اے حکیم چورن کمال دے
میرا افطار تابہ سحر چلے
کوئی فجر تک مغرب کو ٹال دے
ملے حاذق طبیب کوئی اے کاش
جو دوا میرے حسبِ حال دے
میں کہوں کہ بھوک میری کم ہوئی
دوا ہاضم وہ نسخہ میں ڈال دے
میرے روز و شب بیتیں کھانے میں
مجھے ہاضمہ بے مثال دے
کروں اپنی انکم کو سیو بس
میرے دل میں ایسا خیال دے
نہ خرچ کروں ایک روپیہ بھی
جو کبھی خدا مجھے مال دے
افطار مساجد میں ہو میری
قیام کے لئے اسپتال دے