Add Poetry

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے

Poet: کیفی اعظمی By: Zaid, Peshawar

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے

اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی

اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی
آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے
تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ
ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے

Rate it:
Views: 1687
21 Jun, 2021
Related Tags on Kaifi Azmi Poetry
Load More Tags
More Kaifi Azmi Poetry
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو یہ کس طرح یاد آ رہی ہو یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک، یہ نرم باہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، سیاہ گیسو
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو
تمام شوخی، تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزاروں جادو جگا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
گلابی لب، مسکراتے عارض، جبیں کشادہ، بلند قامت
نگاہ میں بجلیوں کی جھل مل، اداؤں میں شبنمی لطافت
دھڑکتا سینہ، مہکتی سانسیں، نوا میں رس، انکھڑیوں میں امرت
ہمہ حلاوت، ہمہ ملاحت، ہمہ ترنم، ہمہ نزاکت
لچک لچک گنگنا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
تو کیا مجھے تم جلا ہی لو گی گلے سے اپنے لگا ہی لو گی
جو پھول جوڑے سے گر پڑا ہے تڑپ کے اس کو اٹھا ہی لو گی
بھڑکتے شعلوں، کڑکتی بجلی سے میرا خرمن بچا ہی لو گی
گھنیری زلفوں کی چھاؤں میں مسکرا کے مجھ کو چھپا ہی لو گی
کہ آج تک آزما رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
نہیں محبت کی کوئی قیمت جو کوئی قیمت ادا کرو گی
وفا کی فرصت نہ دے گی دنیا ہزار عزم وفا کرو گی
مجھے بہلنے دو رنج و غم سے سہارے کب تک دیا کرو گی
جنوں کو اتنا نہ گدگداؤ، پکڑ لوں دامن تو کیا کرو گی
قریب بڑھتی ہی آ رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
رانا علی
مکان آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر
ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے
ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے
کی یہ دیوار بلند، اور بلند، اور بلند
بام و در اور، ذرا اور سنوارے ہم نے
آندھیاں توڑ لیا کرتی تھیں شمعوں کی لویں
جڑ دیئے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورش تعمیر لیے
اپنی نس نس میں لیے محنت پیہم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لیے
دن پگھلتا ہے اسی طرح سروں پر اب تک
رات آنکھوں میں کھٹکتی ہے سیہ تیر لیے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
Anila
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets