کویٔ بھی کام ہو امکان سے باہر نہیں ہوتا
سبق کویٔ بھی ہو لمحے میں تو ا زبر نہیں ہوتا
محبت کا ملے فقدان جِس گھر کے مکینوں میں
وہ ہو سکتا ہے کچھ بھی اور لیکن گھر نہیں ہوتا
کویٔ کتنا بھی چاہے سخت خوُ ثابت کرے خود کو
کویٔ انساں بھی اندر سے مگر پتھر نہیں ہوتا
بہاتے ہی رہو تم اشک چاہے زندگی ساری
کبھی بھی خشک لیکن آ نکھ کا ساگر نہیں ہوتا
ہو اچھا یا برُا اِنسان ، پر مخلوق ہے اُس کی
خدا کا بند انساں پر کبھی بھی در نہیں ہوتا
فقط محسوُس کرنے سے ہی وہ محسوُس ہوتے ہیں
ہمیں احساس جذبوں کا اُنھیں چھوُ کر نہیں ہوتا