کچھ اس لئے بھی مجھے خوف اب ہوا کا ہے
مرے مکان پہ سایہ کسی ردا کا ہے
بہت اداس ہوں اے ساعتِ قضا ٹھہرو
کڑا ہے وقت تو لمحہ یہی دُعا کا ہے
حسیں رتوں کی جواں چاندنی سمیٹ کے رکھ
اب اِس کے بعد ہر دن کڑی سزا کا ہے
وہ کھوج جس کے لئے عمر رائیگاں گزری
وہی سراغ کسی اور نقشِ پا کا ہے
ہر ایک بات تو مدت کی ہو چکی تھی طے
ہمارے بیچ کا جھگڑا فقط انا کا ہے
میں عہدِ جبر میں خاموش اِس لئے ہوں عقیلؔ
کہ عدل جیسا بھی ہو فیصلہ خدا کا ہے