کھلتا جو گلاب ہے جلتاپھر یہ زمان کیوں
گزرا ہر نشیدہ پل بہکاتا نیا شیطان کیوں
تجھے آنا مشکل نہیں جانا ہی پھر امتحان کیوں
جگر کا گرم لہو قلب ہی پھر ارمان کیوں
چبھتا نہیں خار بھی ، پھول پھر پشیمان کیوں
ڈرتا تاریکی سے چاندنی مجھ پہ مہربان کیوں
کٹتا رہا قلب تنہا ، میرا تن نادان کیوں
بیتابیء جاناں میں پٹخنا سر ہی آسان کیوں
چاہتے شب وروز مسیحائی کم پھر انسان کیوں
لکھتا لوح قلم پہ ، پڑھتے نہیں پھر قرآن کیوں