کہ بچپن میں
مرے ہاتھوں سے گرتے ہی
کھلونے ٹوٹ جاتے تھے
مرا بچپن جوانی میں ڈھلا جب سے
نیا اک سلسلہ سا جیسے چل نکلا
کہ پہلے ہاتھوں سے گر کر
کھلونے ٹوٹ جاتے تھے
اور
اب ٹوٹے کھلونے ہاتھ آتے ہیں
امیدیں باندھ لیتی ہوں
امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
مجھے ڈر ہے
کھلونے ٹوٹ جانے سے
امیدیں ٹوٹ جانے سے
نہ ریزہ ریزہ ہو جاؤں
میں اب خود بھی