تُو ہر قدم پہ سب کو نصیحت ابھی نہ کر
کہتی رہی میں اُس سے بغاوت ابھی نہ کر
گُلشن میں تتلیوں کی امانت ہے ہر شجر
پھولوں کی ٹہنیوں سے شرارت ابھی نہ کر
اس رات کی ہی صبح کا ہم کو یقیں نہیں
اتنی بھی لاجواب طبیعت ابھی نہ کر
اب سامنے سے زیست کی گاڑی گزر گئی
کس نے کہا تھا رب کی عبادت ابھی نہ کر
دیکھا ہے سب نے چاند بھی زلفوں کے سحر میں
کچھ وقت چاندنی سے شرارت ابھی نہ کر
اب بھی سکوتِ بَحر سے گزرے گی زندگی
افکارِ نَو پہ وشمہ قناعت ابھی نہ کر