کیا اسی کا نام آزادی ہے
Poet: ڈاکٹر صبا غزالی By: ڈاکٹر صبا غزالی, Karachiہم چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے تو چاند کو دیکھا کرتے تھے
کبھی روشن تارے تو کبھی دلکش نظارے دیکھتے تھے
کبھی تازہ تازہ صبح کی ہوا ہمارا دل لبھاتی تھی
کبھی سورج کی تپتی دھوپ اس دل کو دہلاتی تھی۔
جو لوگ ساتھ میں رہتے تھے وہ سب محبت والے تھے
اور جو حسد کرتے تھے وہ سب باہر والے تھے۔
اپنے تو سب دوست تھے وہ سچے اور بے لوث تھے
دشمن ہی بس دوغلے تھے ان کے حربے دل سوز تھے۔
پر اب یہ کیا ہوا اپنا ہی اپنے کو مارتا ہے
ہم کس ڈگر کو جائیں گے یہ بس خدا ہی جانتا ہے۔
ہر طرف خون ہی خون ہے اب کون کسے پہچانتا ہے
کیا چھوٹا اور کیا بڑا اب کون کسے گردانتا ہے۔
ان اقوام کی کیا قسمت جو خود ذلت کماتی ہیں
اپنا مفاد اپنا کھانا پھر چین سے سو جاتی ہیں
اس لفظی گولا باری سے یہ اپنا جی بہلاتی ہیں
آئے گا انقلاب آئے گا گھر بیٹھے شور مچاتی ہیں
ہم ٹوٹیں گے یا بکھریں گے بس یہ دیکھنا باقی ہے
وہ قوم تباہ برباد ہے جو ظلم کو سہتی جاتی ہے
سو در حقیقت اس روش کا صلہ بربادی ہے
اے دل نایاب بتائو نا کیا اسی کا نام آزادی ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






