کیوں چھپ گیا ہے مجھے سو چوں میں ڈال کر
تنہا سا کر دیا مجھے کچھ تو خیال کر
تنہائیاں مٹائی ہیں اکثر اسی طرح
اپنے گلے میں آپ ہی بانہوں کو ڈال کر
منزل بلا رہی ہے تو منزل تلک چلو!
مت ساتھ چھوڑنا مجھے رستے میں ڈال کر
ان آندھیوں میں میری بھی رفتار دیکھنا
کانٹوں پہ چل رہی ہوں میں آنچل کو ڈال کر
اجڑے نگر کے طاقوں پہ روشن چراغ ہیں
بس جائے دل کی بستی کچھ ایسا کمال کر
میں تجھ کو کھو کے خود سے بہت دور ہو گئی
احساسِ آگہی کو نہ اب پائمال کر