ہاتھ خالی ہیں مگر دِل ہے نگینہ اپنا
اپنی دولت ہے یہ جینے کا قرینہ اپنا
جلتی دوپہر میں اِک وقت کی روٹی کے لیۓ
میرے آبا٫ نے بہایا ہے پسینہ اپنا
طے کیۓ آگ کے جلتے ہوۓ دریا کتنے
تب کہیں جا کے لگا پار سفینہ اپنا
اور تو کچھ بھی نہیں پاس ہمارے لیکن
اپنے افکار ہی ٹھہرے ہیں خزینہ اپنا
نسل در نسل ورا ثت میں غریبی پایٔ
دیکھ لیتے ہیں چلو چل کے دفینہ اپنا
ہے زمانے کو محبت کی ضرورت عذراؔ
دفن کر ڈالو کہیں جا کے یہ کینہ اپنا