ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوک سناں پر دیکھا
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آ کر دیکھا
ایسے لپٹے ہیں در و بام سے اب کے جیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں مرا گھر دیکھا
اب یہ سوچا ہے کہ اوروں کا کہا مانیں گے
اپنی آنکھوں پہ بھروسا تو بہت کر دیکھا
ایک اک پل میں اترتا رہا صدیوں کا عذاب
ہجر کی رات گزاری ہے کہ محشر دیکھا
مجھ سے مت پوچھ مری تشنہ لبی کے تیور
ریت چمکی تو یہ سمجھو کہ سمندر دیکھا
دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا