ہم کہاں ٹوٹے ہوئے موروں کے پرمانگتے ہیں
نہ عداوت کے ہی حامی ہیں نہ شر مانگتے ہیں
نہ ہو قتل کہیں نہ جنگوں کے نقارے بجیں
ہم تو ہنستے ہوئے چہرے کھلےدر منگتے ہیں
ہو چڑیا کا کہیں شور کہیں کوئل کی صدا ہو
اور ہم بلبل کے لیے سرسبز شجر مانگتے ہیں
ہوں چوپال وہی گاؤں کے جہاں کھیلتے بچے
اپنے کیھتوں میں چھپے یاروں کی خبر منگتے ہیں
نہ ہو گولی کی آواز کہیںنہ ہی بارود کی بو ہو
ہم تو مٹی کے مہکنے کو ابر مانگتے ہیں
میرے اجداد کا شیوہ ہے اور بزرگوں کی روایت
اپنی محنت کا ثمر کر کے بدن تر منگتے ہیں
جس زمیں پہ ہو محبت بھی تعظیم و امن بھی
ہم کاشی ایسی مٹی پہ قبر منگتے ہیں