ہمارے سامنے یوں تو نجانے کتنے منظر تھے
Poet: Azra Naz By: Azra Naz, UKہمارے سامنے یوں تو نجانے کتنے منظر تھے
انہی پر تھی نظر جو آ نکھ کی پتلی کے اندر تھے
مِری چاہت سمندر تھی چھپا کر وہ کہاں رکھتے ؟
چھلک جاتے آخر کیوں کہ ان کے ظرف کمتر تھے
حوادث سے زمانے کے بچا ہے کب یہاں کویٔ
اُنہی کو سر نگوں پایا زمانے میں جو خود سر تھے
الگ یہ بات ہارے زیست کے ہر امتحاں میں ہم
سبق ہم کو اگرچہ زندگی کے سارے ا ز بر تھے
نہ بارش دھوُپ سے محفوُظ رکھتا تھا کبھی ہم کو
عجب اِک سایباں اوڑھے ہوۓ ہم اپنے سر پر تھے
وہاں کا ہر سماں آ نکھوں میں ہے اِک عکس کی صوُرت
جہاں کی چھاؤں گہری تھی جہاں لمبے صنوبر تھے
بھلا پاۓ نہ صدیوں تک جنھیں عذراؔ دِلِ مضطر
وہ بربادی کے قصے قریہ قریہ اور گھر گھر تھے
More Life Poetry






