ہمارے سامنے یوں تو نجانے کتنے منظر تھے
Poet: Azra Naz By: Azra Naz, UKہمارے سامنے یوں تو نجانے کتنے منظر تھے
انہی پر تھی نظر جو آ نکھ کی پتلی کے اندر تھے
مِری چاہت سمندر تھی چھپا کر وہ کہاں رکھتے ؟
چھلک جاتے آخر کیوں کہ ان کے ظرف کمتر تھے
حوادث سے زمانے کے بچا ہے کب یہاں کویٔ
اُنہی کو سر نگوں پایا زمانے میں جو خود سر تھے
الگ یہ بات ہارے زیست کے ہر امتحاں میں ہم
سبق ہم کو اگرچہ زندگی کے سارے ا ز بر تھے
نہ بارش دھوُپ سے محفوُظ رکھتا تھا کبھی ہم کو
عجب اِک سایباں اوڑھے ہوۓ ہم اپنے سر پر تھے
وہاں کا ہر سماں آ نکھوں میں ہے اِک عکس کی صوُرت
جہاں کی چھاؤں گہری تھی جہاں لمبے صنوبر تھے
بھلا پاۓ نہ صدیوں تک جنھیں عذراؔ دِلِ مضطر
وہ بربادی کے قصے قریہ قریہ اور گھر گھر تھے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






