ہے وہ اسیر مگر سہارا ہے وجودِ نادار کا
اور جو ہے حریف اس فرعونی اقتدار کا
جو کہتا ہے کربِ زندان میں مُسکرا کے
مجھے آتا ہی نہیں طریقہ راہِ فرار کا
عدوئے وطن سہنے ہوے ہیں یہ سارے،
شِکست دے رہا ہے انہیں لہجہ میرے یار کا
لہوِ وجودِ ابہم کی ہے یہ صدا اے صیاد
اثر کیوں نہیں ہوتا فلسطینی پُکار کا
پائوں رکھتے ہیں عمران جیسے شہرِ زندان میں
روح کانپ جاتا ہے اڈیالہ کے در و دیوار کا
دل بُجھتے جا رہے ہیں نا اہل حکمرانوں کے
اتنا خوف ہے چھایہ قیدی آٹھ سو چار کا
آ گئے بِلو رانی، ڈڈو چارجر اور سرجری نانی
ہم وطنو جلوہ دیکھتے جائو حُسن کے بازار کا
یہ پھانسی، عُمر قید، تیس چالیس سال قید
اے عادل بہت چھوٹا مول لگایا تُو نے وفادار کا
بنی گالہ کی اُداس ہَوائیں آ کے اکثر پتہ
مجھ سے پوچھتی ہیں اپنے اسیر یار کا
اسلام کے قوانین کو توڑے تیرا قانون اے قاضی
سُن کالا مُنہ ہو ایسے قانون کے پیروکار کا
نہ جانے کب ٹوٹے گا در اڈیالہ جیل کا
جانے کب اُبھرے گا شمسِ نوید نادار کا