یوں لگتا ہے
جیسے دل میں آخری درد اترنے کو ہے
جیسے کب کی بیری قسمت
آخری حملہ کرنے کو ہے
یوں لگتا ہے
جیسے لکیریں ہاتھ پہ پھیلی
گلے کا پھندا ہوجائیں گی
جیسے سینے کی تربت میں
آرزوئیں سب سوجائیں گی
یوں لگتا ہے
جیسے تنہائی کا صحرا بُلا رہا ہے
اور وحشت کا کالا جنگل
مجھ کو اپنا بنارہا ہے
یوں لگتا ہے جیسے شام اترنے کو ہے دیواروں پہ
یوں لگتا ہے جیسے رونق مٹنے کو ہے چوراہوں سے
یوں لگتا ہے جیسے آخری بازی لڑکر ہار رہا ہوں
یوں لگتا ہے جیسے اب میں اتر رہا ہوں ان کندھوں سے
جن پر اب تک بار رہا ہوں
یوں لگتا ہے
جانے ایسا کیوں لگتا ہے