یکجا تھے سارے فہم و فراست میں پست عوام
قبلہ بنے ہوئے تھے قبیلہ پرست عوام
لگتا تھا چھو گیا تھا اُنھیں جنونیت کا جن
اِس طرح اپنے آپ میں رہتے تھے مست عوام
کیا خوب ہر طرف ہے ترقّی کی دھوم دھام
کشکول تھامے ملک ہے کاسہ بدست عوام
سر پر ہے سائباں کی طرح دھوپ کا شجر
آرام کر رہے ہیں ابھی فاقہ مست عوام
یوں ہی رہیں گے حرص و ہوَس کے اگر اسیر
کھائیں گے اپنے آپ سے یوں ہی شکست عوام