یہ افسردہ چہرے اب دکھائی نہ دیں
جو ہیں آشنا درد سے وہ غم آشنائی نہ دیں
ہر طرف اس کے حسن کی بات چلی ہے
مگر پھر بھی یہ صدائیں سنائی نہ دیں
یہ زور زور سے دھڑکتا ہے دل آج
پلٹ کر دیکھوں تو وہ دکھائی نہ دیں
یہ کون زیست سے ہوا ہے محروم آج
کچھ آوازیں مجھے اب سنائی نہ دیں