یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤنگا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤ نگا
مرنے سے پیشتر میری آواز مت چرا
میں اپنی جاۂیداد ادھر چھوڑ جاؤں گا
قاتل مرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سرَ چھوڑ جاؤنگا
تْو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
لیکن تیرے لۓ میں سحر چھوڑ جاؤنگا
آۂندہ نسل مجھ کو پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤنگا