یہ شہر ہے انجان کہاں رات گزاروں
ہے جان نہ پہچان کہاں رات گزاروں
دامن میں لئے پھرتا ہوں میں دولت غم کو
غافل ہے نگہبان کہاں رات گزاروں
کٹیا تو الگ سایۂ دیوار نہیں ہے
ہر راہ ہے ویران کہاں رات گزاروں
اس راہ گزر پر تو شجر بھی نہیں کوئی
اور سر پہ ہے طوفان کہاں رات گزاروں
بہروپئے پھرتے ہیں ہر اک راہ گزر پر
کوئی نہیں انسان کہاں رات گزاروں
در وا ہے کوئی اور نہ دریچہ ہی کھلا ہے
ہر کوچہ ہے ویران کہاں رات گزاروں