یہ نہ پوچھو کہاں کہاں ہوں میں
اتنا کافی ہے کہ یہاں ہوں میں
نہ زمیں اور نہ آسماں ہوں میں
ان ہی دونوں کے دردمیاں ہوں میں
جب کبھی خود کو ڈھونڈنے نکلا
میں نے پایا کہ بے نشاں ہوں میں
زندگی میرے دم سے قائم ہے
کیونکہ سانسوں کا کارواں ہوں میں
وصل کو اور وصال کو دیکھو
ہے الف جس جگہ وہاں ہوں میں
خود کو اختر سمجھ لیا ہوتا
کیوں یہ سوچا کہ کہکشاں ہوں میں