نسب کے ساتھ، زمانے میں نام بِکتے ہیں
ہمارے شہر میں، اب بھی غلام بِکتے ہیں
ادب شناس، ادب دشمنی پہ مائل ہیں
حصولِ زر کے لئے، اب کلام بِکتے ہیں
عجب نہیں کہ بِکیں، فاقہ کش زمانے میں
غضب تو یہ ہے کہ عالی مقام بِکتے ہیں
سنا ہے شہر میں بکنے لگے ہیں تھانے بھی
سنا ہے مسجد و مکتب، امام بِکتے ہیں
وفا پرست، اگر ہو خریدنے والا
وفا سرشت، بصد احترام بِکتے ہیں