بی بی سی نے ایران کی اخلاقی پولیس فورس کے ایک اہلکار سے خصوصی انٹرویو میں یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ یہ فورس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے، جبکہ ایران میں منہسا امینی کی ہلاکت کے بعد خواتین کی حجاب کے خلاف مزاحمت میں شدت آئی ہے۔

ایران کے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے ملک میں قائم متنازع اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اخلاقی پولیس کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ایرانی خواتین روایتی اسلامی لباس پہنیں۔
اخلاقی پولیس کے خاتمے کا اعلان ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کیا ہے تاہم حکومتی سطح پر اس بیان کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ خواتین کے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد 22 سالہ مہسا امینی کی مبینہ طور پر اخلاقی پولیس کے اہلکاروں کے ہاتھوں موت ہو گئی تھی جس کے بعد ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
بی بی سی فارسی کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ مذہبی پولیس کو ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ حجاب سے متعلق ایران میں نافذ قانون بدل جائے گا۔ ان کے مطابق اس اقدام کو مظاہرین کی جانب سے موثر نہیں سمجھا جائے گا اور وہ اسے 'دیر سے لیے گئے ایک فیصلے' کے طور پر دیکھیں گے۔
ایران کی ’گشتِ ارشاد‘ پولیس کے خصوصی یونٹ ہیں جنھیں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور ’غیر مناسب‘ لباس پہنے ہوئے افراد کو حراست میں لینے کا کام سونپا گیا تھا۔
ایرانی قانون کے تحت، جو اسلامی شریعت کی ایرانی تشریح پر مبنی ہے، خواتین کو اپنے بالوں کو حجاب (سر پر سکارف) سے ڈھانپنا چاہیے اور چست لباس پہننے پر پابندی ہے تاکہ جسم کے خدو خال نمایاں نہ ہوں۔
مہسا امینی کو 13 ستمبر کو تہران میں اخلاقی پولیس نے جب گرفتار کیا تھا تو مبینہ طور پر اُن کے سر کے سکارف سے کچھ بال نظر آ رہے تھے۔ وہ پولیس حراست کے دوران مبینہ تشدد کے بعد کوما میں چلی گئی تھیں اور تین دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی تھیں۔
ایران کی پولیس فورس نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ افسران نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے سر پر ڈنڈے سے مارا اور انھیں اپنی ایک گاڑی سے ٹکرا دیا۔

ایران کی اخلاقی پولیس کے ایک افسر نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اخلاقی پولیس فورس میں کام کرنے کے اپنے تجربے سے متعلق بتایا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ (ایرانی حکام) ہمیں اخلاقی پولیس میں کام کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ فورس خواتین کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے کیونکہ اگر وہ مناسب لباس نہیں پہنیں گی تو مرد انھیں دیکھ کر جذبات پر قابو نہیں رکھ پائیں گے اور انھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا تھا کہ وہ چھ اہلکاروں پر مبنی ٹیموں میں کام کرتے ہیں جن میں چار مرد اور دو خواتین ہوتی ہیں۔ اور ڈیوٹی کے دوران اُن جگہوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جہاں پیدل چلنے والے افراد یا بھیڑ زیادہ ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے یہ کافی عجیب ہے کیونکہ اگر ہم صرف لوگوں کی رہنمائی کرنے جا رہے ہیں تو ہمیں کسی مصروف جگہ کو منتخب کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا ممکنہ طور پر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم زیادہ لوگوں کو گرفتار کریں؟‘

اُس افسر نے بتایا کہ اگر انھوں نے لباس کے ضابطہ کار کی خلاف ورزی کرنے والے کافی افراد کی نشاندہی نہیں کی یا ان کے خلاف کارروائی نہیں کی تو اُن کے کمانڈر انھیں اس فورس سے ہٹا دیں گے یا کہیں گے کہ وہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’افسران ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم طاقت کا استعمال کر کے ان افراد کو وین میں دھکیلیں، کیا آپ جانتے ہیں ایسا کرتے ہوئے کتنی مرتبہ میری آنکھوں میں آنسو آئے؟‘
’میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ ہم میں سے زیادہ تر عام سپاہی ہیں جو لازم فوجی سروس کر رہے ہیں، مجھے بہت بُرا لگتا ہے۔‘
ایران میں انقلاب کے بعد جاری حکم نامہ
ایرانی حکام کی ’خراب حجاب‘ کے خلاف جنگ یعنی سر پر سکارف یا دیگر لازمی لباس کو غلط طریقے سے پہننے کے خلاف کارروائی کا سلسلہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد شروع ہوا تھا جس کا ایک بڑا مقصد خواتین کو عام اور سادہ لباس پہنانا تھا۔
مغرب نواز شاہ محمد رضا پہلوی کا تختہ الٹنے سے پہلے تہران کی سڑکوں پر منی سکرٹس اور کھلے بالوں کے ساتھ خواتین کا نظر آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ شاہ محمد رضا پہلوی کی اہلیہ فرح، جو اکثر مغربی لباس پہنتی تھیں، کو ایک جدید عورت کی مثال کے طور پردیکھا جاتا تھا۔
تاہم، ایران میں اسلامی انقلاب کے چند مہینوں کے اندر ہی شاہ رضا پہلوی کے دورِ حکومت میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کردہ قوانین منسوخ ہونے لگے تھے۔
انسانی حقوق کی وکیل اور کارکن مہرنگیز کار جنھوں نے پہلے حجاب مخالف مظاہرے کو کرنے میں مدد کی تھی کا کہنا تھا کہ ’یہ راتوں رات نہیں ہوا تھا، یہ ایک مرحلہ وار عمل تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انقلاب کے فوراً بعد سڑکوں پر مرد و عورت زرق برق لباس میں ملبوس خواتین کو مفت سکارف بانٹ رہے تھے۔‘
سات مارچ 1979 کو انقلاب کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ روح اللہ خمینی نے حکم جاری کیا کہ تمام خواتین کے لیے ان کی کام کی جگہوں پر حجاب لازمی ہو گا اور وہ بے پردہ خواتین کو ’برہنہ‘ تصور کرتے ہیں۔
مہرنگیزکار جو اب امریکہ کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں رہتی ہیں کا کہنا تھا کہ ’ان کے اس خطاب کو بہت سے انقلابیوں نے خواتین کے سروں پر زبردستی حجاب پہنانے کے حکم کے طور پر لیا تھا، اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ راتوں رات ہونے والا ہے، اس لیے خواتین نے مزاحمت شروع کر دی اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی تھی اگلے دن خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تہران کی سڑکوں پر احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔‘
ایران کے رہبر اعلیٰ کے فرمان کے باوجود حکام کو یہ فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگا کہ خواتین کے لیے ’مناسب‘ لباس کس کو سمجھا جائے۔
انھوں نے بتایا تھا کہ ’چونکہ اس بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں تھیں تو (وہ) ایسے پوسٹرز اور بینرز لے کر آئے جن میں ماڈلز کو دکھایا گیا تھا اور ان پوسٹرز اور بینروں کو دفاتر کی دیوراروں پر لٹکا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو اس ہدایات (حجاب پہننے سے متعلق) پر عمل کرنا لازمی ہے ورنہ انھیں دفتر داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘
سنہ 1981 تک، ایران میں خواتین اور لڑکیوں کو قانونی طور پر سادہ ’اسلامی‘ لباس پہننے کی اجازت تھی یعنی گھر سے باہر جاتے وقت ایک پورے جسم کو ڈھاپنے والی چادر اوڑھنے اور سر پر سکارف پہننا ضروری تھا۔

مہرنگیز کار کہتی ہیں کہ مگر انفرادی سطح پر لازمی حجاب کے خلاف لڑائی جاری رہی اور ہم نے سر کا سکارف پہننے یا سر کے بالوں کو مکمل طور پر نہ ڈھانپنے کے لیے تخلیقی انداز سے حل نکال لیا تھا۔
’ہر ایک مرتبہ جب وہ ہمیں روکتے ہم لڑائی شروع کر دیتیں۔‘
سنہ 1983 میں ایرانی پارلیمان نے فیصلہ کیا کہ جو خواتین سرعام اپنے بال نہیں ڈھانپتی ہیں انھیں 74 کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں، اس قانون میں 60 دن تک قید کی سزا کا اضافہ کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود حکام اب تک اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک میں ہر عمر کی خواتین گھروں سے باہر اپنی حدود کو بڑھاتے ہوئے اکثر شوخ رنگوں کے سکارف میں آدھے سر کے بالوں کو ڈھانپے اور چست لباس پہنے نظر آتی ہیں۔
’سخت کارروائیاں‘

اس قانون کے نافذ کیے جانے کے بعد سے ان برسوں کے دوران ملک کے اقتدار پر رہنے والے صدر کے مطابق اس قانون کی سزاؤں میں تبدیلیاں اور شدت آتی گئی۔
تہران کے اس وقت کے انتہائی قدامت پسند میئر محمود احمدی نژاد نے جب 2004 میں صدارت کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی تو اس معاملے پر زیادہ ترقی پسند دکھائی دینے کی کوشش کی تھی۔
انھوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ ’لوگوں کے مخلتف پسند ہے اور ہمیں اس سب کا خیال رکھنا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
خاتون کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج: ’ژینا نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا‘
مہسا امینی کی ہلاکت: ایران میں خواتین کا بال کٹوا کر احتجاج
ایران: انقلاب کے بعد اور اب
ایرانی خواتین: اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد
مگر صدارتی انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد اس برس انھوں نے گشتِ ارشاد (اخلاقی پولیس) کو باضابطہ طور پر قائم کیا تھا۔ اس وقت تک دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیم فوجی یونٹوں کے ذریعہ خواتین کے لباس کے ضابطوں کو غیر رسمی طور پر نافذ کیا گیا تھا۔

ایران کی اس اخلاقی پولیس فورس کو اکثر عوام کی طرف سے اُن کے سخت رویے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا، اور خواتین کو اکثر حراست میں لیا جاتا تھا اور صرف اس صورت میں رہا کیا جاتا ہے جب کوئی رشتہ دار یقین دہانی کرائے کہ وہ مستقبل میں قوانین کی پابندی کریں گی۔
ایران کے وسطی شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا جب ہمیں ہماری لپ اسٹک کی وجہ سے روکا گیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’وہ ہمیں پولیس سٹیشن لے گئے اور میرے شوہر سے کہا کہ وہ آئیں اور ایک کاغذ پر دستخط کریں کہ وہ ہمیں حجاب کے بغیر باہر نہیں جانے دیں گے۔‘
تہران سے ایک اور خاتون نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایک خاتون افسر نے ان سے کہا کہ ان کے جوتے مردوں کے لیے ’بہت شہوت انگیز‘ ہیں اور انھیں حراست میں لے لیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے شوہر کو کال کی اور کہا جوتے کا ایک اور جوڑا لا کر دیں۔ پھر میں نے ایک کاغذ پر دستخط کیے جس میں، میں نے اعتراف کیا کہ میں نے غیر مناسب لباس پہنا ہوا تھا اور اب میرا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔‘
ایران کی اخلاقی پولیس کے ساتھ تجربات کی دیگر رپورٹس، جو بی بی سی کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں، ان میں مار پیٹ اور مزید ظالمانہ اور غیر معمولی سزائیں شامل ہیں۔
ایک خاتون نے بتایا تھا کہ پولیس نے اس کی گرفتاری کے دوران اس کے جسم پر لال بیگ چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔
’نئی پابندیاں اور کارروائیاں‘

ابرہیم رئیسی ،ایک سخت گیر عالم جو گذشتہ سال ایرانی صدر منتخب ہوئے تھے،نے 15 اگست کو پابندیوں کی ایک نئی فہرست کو نافذ کرنے کے حکم پر دستخط کیے تھے۔
ان میں نگرانی کرنے والے کیمروں کو شامل کیا گیا تھا تاکہ نقاب نہ کرنے والی خواتین کی نگرانی اور جرمانے کیے جا سکے یا انھیں ’کونسلنگ‘ کے لیے بھیجا جا سکے، اور کسی بھی ایرانی خاتون جو آن لائن حجاب کے قوانین کے خلاف سوال یا مواد پوسٹ کرے کو لازمی سزا یا قید دیے جانا شامل ہے۔