جھوٹے اس سنسار کے پیچھے بھاگ پڑے
Poet: راشد علی مرکھیانی By: Rashid Ali Markhiani, LARKANAجھوٹے اس سنسار کے پیچھے بھاگ پڑے
 مصنوعی کردار کے پیچھے بھاگ پڑے
 
 ماں کی آنکھیں رستہ تکتی رہتی ہیں
 بچے کاروبار کے پیچھے بھاگ پڑے
 
 سورج سر پر آیا تو سب راز کھلے
 سائے تک دیوار کے پیچھے بھاگ پڑے
 
 دل والوں کی ریت نرالی دیکھی ہے
 یار کی خاطر ہار کے پیچھے بھاگ پڑے
 
 صاحب ہم بے مول ہیں ہم سے دور رہیں
 جائیں! کیوں بیکار کے پیچھے بھاگ پڑے
 
 ہم جیسوں کی مرضی کب تک چلنی تھی؟
 آخر میں اس یار کے پیچھے بھاگ پڑے
 
 راشد میرے ساتھ ہی رہتے، اچھا تھا
 تم تو زندہ کو مار کے پیچھے بھاگ پڑے
More Sad Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 