ساال نو
Poet: ضیغم ر قریشی By: Zaigham R. Qureshi, Londonبہت امید تھی ، بہت انتظار تھا
ہر اک پل صرف ترا طلبگار تھا
راہ میں نگاہیں تھیں ہم نے بچھائیں
پلک جھپک کے جو کرنا دیدار تھا
اب آئے ہو تو کس شان سے
کس گھمنڈ سے ، کس مان سے
ہوا جن کا برپا شور ہے
بس ان کا حکم سرکار تھا ؟
ہے تم نے بہت ستایا ہمیں
ہے راتوں کو ڈرایا ہمیں
یہ جو چہروں پے اب خوف ہے
تیری وحشت کا علمبردار تھا
لڑتے غفلت سے اب ہوں جھک گیا
کچھ سوچ سمجھ کے اب ہوں رک گیا
آفت ہے نہیں تو اور ہے یہ کیا
سوچ میں مری تو دلدار تھا
سال نو تو آتے ہیں خوشی لے کر
بدلتے رنگوں میں چھپی ہنسی لے کر
کیا ڈھونڈ رہے ہو ویرانے دل میں مرے
وہ اور کچھ نہیں بس ٹوٹا مینار تھا
بیماری ہے یہ کیسی جلدی سے چھوٹ جائے
رفتار اس حقیقت کی خدا گر ٹوٹ جائے
اب سوچتا ہوں ضیغم یہ وقت گزر جائے گا
کہیں تیزی سے آیا فقط گردوغبار تھا
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






