ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
Poet: Shahzad anwar khan By: Shahzad anwar khan, Sailani nagar,akola,maharashtra,Indiaکرم پر کرم کرنے والے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
چلائی نہیں مشنری بجلیوں پر
بنایا ہے کھانا سبھی لکڑیوں پر
نہ ٹی-وی ،نہ ہیٹر میرے پاس میں ہے
نہ پنکھانہ کولر میرے پاس میں ہے
لگاتار بل گھر میں ڈالے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
میری زیست پل پل میں بکھری پڑی ہے
جو ہے پاس بی-اے کی ڈگری پڑی ہے
نہ سروس ملے ہے سوا روپئے کے
نہ کوئی چلے ہے ہوا روپئے کے
اب امّید کے سب اجالے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
سلامت رہے اے خدا چھت میری یہ
شکستہ مکاں ہی وراثت میری یہ
اتی کرم والوں نے گھر بار توڑا
یہ پھٹ پات کا سارا بازار توڑا
غریبوں کے منہ سے نوالے گئے ہیں
ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






