Poetries by Naveed Ahmed Shakir
جان میری جان کوئی اور ہے جان میری جان کوئی اور ہے
بات میری مان کوئی اور ہے
ہو گیا ہوں میں کسی کا ہم سفر
اب مری پہچان کوئی اور ہے
ناز تیرے ظلم پر ہے آج بھی
عشق کی یہ شان کوئی اور ہے
اب عمر بھر کی جدائی کس لئے
یہ ترا احسان کوئی اور ہے
جی رہا ہوں اب کسی کی زندگی
جسم میں انسان کوئی اور ہے
راس آئ کب رفاقت مر کے بھی
اُس کا قبرستان کوئی اور ہے
نوید شاکر
بات میری مان کوئی اور ہے
ہو گیا ہوں میں کسی کا ہم سفر
اب مری پہچان کوئی اور ہے
ناز تیرے ظلم پر ہے آج بھی
عشق کی یہ شان کوئی اور ہے
اب عمر بھر کی جدائی کس لئے
یہ ترا احسان کوئی اور ہے
جی رہا ہوں اب کسی کی زندگی
جسم میں انسان کوئی اور ہے
راس آئ کب رفاقت مر کے بھی
اُس کا قبرستان کوئی اور ہے
نوید شاکر
مرا رستہ کوئی اور ہے مری منزل کوئی اور ہے مرا رستہ کوئی اور ہے مری منزل کوئی اور ہے
مجھے مطلوب تھا کوئی مجھے حاصل کوئی اور ہے
منافق جو نہیں ہوں تو بڑا بھی تو نہیں ہوں میں
تری محفل کوئی اور ہے مری محفل کوئی اور ہے
یقیں آیا نہیں مجھ کو کئی دن بھول جانے پر
کہوں کیسے کہ تیری یاد سے غافل کوئی اور ہے
جو تنہا آنکھ سے نکلے وہ پھر رخسار سے گزرے
سمجھتا ہے یہی آنسو مرا ساحل کوئی اور ہے
تمھارا دل کبھی یوں بھی لگے دفتر ہو سرکاری
جہاں قابل کوئی اور تھا وہاں کاہل کوئی اور ہے
زمانے کی نظر میں صرف تنہائی نے مارا ہے
یہ تنہائی نہیں شاکر مرا قاتل کوئی اور ہے
نوید شاکر
مجھے مطلوب تھا کوئی مجھے حاصل کوئی اور ہے
منافق جو نہیں ہوں تو بڑا بھی تو نہیں ہوں میں
تری محفل کوئی اور ہے مری محفل کوئی اور ہے
یقیں آیا نہیں مجھ کو کئی دن بھول جانے پر
کہوں کیسے کہ تیری یاد سے غافل کوئی اور ہے
جو تنہا آنکھ سے نکلے وہ پھر رخسار سے گزرے
سمجھتا ہے یہی آنسو مرا ساحل کوئی اور ہے
تمھارا دل کبھی یوں بھی لگے دفتر ہو سرکاری
جہاں قابل کوئی اور تھا وہاں کاہل کوئی اور ہے
زمانے کی نظر میں صرف تنہائی نے مارا ہے
یہ تنہائی نہیں شاکر مرا قاتل کوئی اور ہے
نوید شاکر
کچھ لوگ زندگی میں آئے عذاب بن کر کچھ لوگ زندگی میں آئے عذاب بن کر
ملنا پڑا ہے پھر بھی جن کو گلاب بن کر
تو نے عطا کیا ہے یادوں کا اک خزانہ
ہر شام جو ملے مجھ کو احتساب بن کر
سب زخم دیکھ کر جو ہنستے ہیں اس جہاں میں
پھر کیوں رہے کوئی دنیا میں کتاب بن کر
یوں تو طلب نہیں باقی دل کو اب کسی کی
تم ہی مجھے کبھی تو مل جاؤ خواب بن کر
محدود زندگی نے اک دن فنا ہے ہونا
شاکر کیا کروں گا میں کامیاب بن کر
Naveed Shakir
ملنا پڑا ہے پھر بھی جن کو گلاب بن کر
تو نے عطا کیا ہے یادوں کا اک خزانہ
ہر شام جو ملے مجھ کو احتساب بن کر
سب زخم دیکھ کر جو ہنستے ہیں اس جہاں میں
پھر کیوں رہے کوئی دنیا میں کتاب بن کر
یوں تو طلب نہیں باقی دل کو اب کسی کی
تم ہی مجھے کبھی تو مل جاؤ خواب بن کر
محدود زندگی نے اک دن فنا ہے ہونا
شاکر کیا کروں گا میں کامیاب بن کر
Naveed Shakir
رشک آتا ہے مجھے اس مہرباں پر رشک آتا ہے مجھے اس مہرباں پر
ظلم کرتا ہے جو سارے میری جاں پر
زندگی ہم نے گزاری جس گماں پر
اب یقیں باقی نہیں ہے اس مکاں پر
جو ہوا سو ہو گیا دکھ اور بھی ہے
دل سے نکلے گے تو جائیں گے کہاں پر
مبتلا ہیں سارے اپنے اپنے غم میں
کون روئے گا مری اس داستاں پر
ساتھ اپنے روز کرتا ہوں عہد اک
ذکر اس کا اب نہ آئے گا زباں پر
Naveed Shakir
ظلم کرتا ہے جو سارے میری جاں پر
زندگی ہم نے گزاری جس گماں پر
اب یقیں باقی نہیں ہے اس مکاں پر
جو ہوا سو ہو گیا دکھ اور بھی ہے
دل سے نکلے گے تو جائیں گے کہاں پر
مبتلا ہیں سارے اپنے اپنے غم میں
کون روئے گا مری اس داستاں پر
ساتھ اپنے روز کرتا ہوں عہد اک
ذکر اس کا اب نہ آئے گا زباں پر
Naveed Shakir
چھوڑ کے تجھے کس در جاؤں تو بہتر ہے چھوڑ کے تجھے کس در جاؤں تو بہتر ہے
لوٹ کر میں اپنے گھر جاؤں تو بہتر ہے
چہروں پر نجانے تیور کیا کیا ہوں تب
اشک آنکھ میں جو بھر جاؤں تو بہتر ہے
تجھ کو بھول جانے کی تھی امید مدت سے
کام آج یہ بھی کر جاؤں تو بہتر ہے
اب یہی بہتر ہے خود بتا دوں سارا سچ
آنکھ سے تری خود گر جاؤں تو بہتر ہے
چھوڑنے لگا ہوں اب ساتھ جو کسی کا میں
ایسے جینے سے تو مر جاؤں تو بہتر ہے
زندگی تمھیں تو معلوم ہے حقیقت بھی
موت سے ابھی کیوں ڈر جاؤں تو بہتر ہے Naveed Shakir
لوٹ کر میں اپنے گھر جاؤں تو بہتر ہے
چہروں پر نجانے تیور کیا کیا ہوں تب
اشک آنکھ میں جو بھر جاؤں تو بہتر ہے
تجھ کو بھول جانے کی تھی امید مدت سے
کام آج یہ بھی کر جاؤں تو بہتر ہے
اب یہی بہتر ہے خود بتا دوں سارا سچ
آنکھ سے تری خود گر جاؤں تو بہتر ہے
چھوڑنے لگا ہوں اب ساتھ جو کسی کا میں
ایسے جینے سے تو مر جاؤں تو بہتر ہے
زندگی تمھیں تو معلوم ہے حقیقت بھی
موت سے ابھی کیوں ڈر جاؤں تو بہتر ہے Naveed Shakir
قید ہے جو دل میں اب تھا اسی کا راج بھی قید ہے جو دل میں اب تھا اسی کا راج بھی
ایک شخص درد تھا اور وہی علاج بھی
دیکھ لو میں خود کو بھی تو بدل نہیں سکا
حال تھا جو کل مرا بس وہی ہے آج بھی
عمر بھر جو چپ رہا جان ظرف تھا مرا
لفظ بھی سمجھ گیا تھا ترا مزاج بھی
لوٹ کر جو آ گیا پاس ہی بٹھا لیا
یوں ختم ہوا ہے اپنا یہ احتجاج بھی Naveed Shakir
ایک شخص درد تھا اور وہی علاج بھی
دیکھ لو میں خود کو بھی تو بدل نہیں سکا
حال تھا جو کل مرا بس وہی ہے آج بھی
عمر بھر جو چپ رہا جان ظرف تھا مرا
لفظ بھی سمجھ گیا تھا ترا مزاج بھی
لوٹ کر جو آ گیا پاس ہی بٹھا لیا
یوں ختم ہوا ہے اپنا یہ احتجاج بھی Naveed Shakir
کیوں عشق کی ابتدا میں ڈگمگائے بہت کیوں عشق کی ابتدا میں ڈگمگائے بہت
یہ سوچ کر آج ہم بھی مسکرائے بہت
در چھوڑ کر جو ترا ہم جائیں بھی تو کہاں
اپنے تو لگتے ہیں ہم کو بھی پرائے بہت
مغرور سے ہو گئے ہیں کیوں وہی لوگ پھر
اے زندگی ناز جن کے بھی اٹھائے بہت
تیرے بچھڑ جانے کا غم یا خوشی تھی کوئی
دل نے ہمارے سبھی رستے سجائے بہت
معلوم سب کو ہو گی جو بات بھی اب ہو گی
اب کیوں بہانے نئے کوئی بنائے بہت Naveed Shakir
یہ سوچ کر آج ہم بھی مسکرائے بہت
در چھوڑ کر جو ترا ہم جائیں بھی تو کہاں
اپنے تو لگتے ہیں ہم کو بھی پرائے بہت
مغرور سے ہو گئے ہیں کیوں وہی لوگ پھر
اے زندگی ناز جن کے بھی اٹھائے بہت
تیرے بچھڑ جانے کا غم یا خوشی تھی کوئی
دل نے ہمارے سبھی رستے سجائے بہت
معلوم سب کو ہو گی جو بات بھی اب ہو گی
اب کیوں بہانے نئے کوئی بنائے بہت Naveed Shakir
زندگی کا رنگ اچھا تو ہے لیکن عارضی ہے زندگی کا رنگ اچھا تو ہے لیکن عارضی ہے
چار دن کی زندگی میں آج کا دن آخری ہے
ایک جب منزل ہو تو پھر چال بھی تو ایک ہی ہو
بس یہی سیکھا ہے دنیا نے بہتر عاجزی ہے
چھا رہی ہے اک خماری تو یہ کیسی سرکشی ہے
یاد میں تیری وہی کیوں منفرد سی تازگی ہے
عشق کا جو مسئلہ ہے مسئلہ وہ عالمی ہے
تو مقدر میں نہیں تو اس میں کوئی بہتری ہے
ایک مدت ہو گئی ہے رابطہ بھی ملتوی ہے
آنکھ میں روشن کسی کی دی ہوئی اک روشنی ہے Naveed Shakir
چار دن کی زندگی میں آج کا دن آخری ہے
ایک جب منزل ہو تو پھر چال بھی تو ایک ہی ہو
بس یہی سیکھا ہے دنیا نے بہتر عاجزی ہے
چھا رہی ہے اک خماری تو یہ کیسی سرکشی ہے
یاد میں تیری وہی کیوں منفرد سی تازگی ہے
عشق کا جو مسئلہ ہے مسئلہ وہ عالمی ہے
تو مقدر میں نہیں تو اس میں کوئی بہتری ہے
ایک مدت ہو گئی ہے رابطہ بھی ملتوی ہے
آنکھ میں روشن کسی کی دی ہوئی اک روشنی ہے Naveed Shakir
چہرا نہیں ملتا شناسا اب کوئی چہرا نہیں ملتا شناسا اب کوئی
ہم بھی کریں کس سے تقاضا اب کوئی
دل تو وہی ہے لوگ اُن جیسے کہاں
ممکن نہیں پھر سے تماشا اب کوئی
مل تو سہی مدت سے گم ہوں سوچ میں
کرنا ہے تجھ سے اک گلہ سا اب کوئی
منسوب تھا تجھ سے تو میرا نام تھا
قائل نہیں میری وفاکا اب کوئی
حسرت ہماری ایک تھی ساری عمر
اک دوسری کیوں ہو تمنا اب کوئی
تم ساتھ دینا کچھ قدم اے زندگی
منزل کی جانب ہے روانہ اب کوئی
اُس ہاتھ میں کوئی شفا باقی نہیں
جو تم کہو ڈھونڈیں مسیحا اب کوئی
شاکر نگاہیں منتظر تو ہیں بہت
کر دے مِرے غم کا مداوا اب کوئی Naveed Shakir
ہم بھی کریں کس سے تقاضا اب کوئی
دل تو وہی ہے لوگ اُن جیسے کہاں
ممکن نہیں پھر سے تماشا اب کوئی
مل تو سہی مدت سے گم ہوں سوچ میں
کرنا ہے تجھ سے اک گلہ سا اب کوئی
منسوب تھا تجھ سے تو میرا نام تھا
قائل نہیں میری وفاکا اب کوئی
حسرت ہماری ایک تھی ساری عمر
اک دوسری کیوں ہو تمنا اب کوئی
تم ساتھ دینا کچھ قدم اے زندگی
منزل کی جانب ہے روانہ اب کوئی
اُس ہاتھ میں کوئی شفا باقی نہیں
جو تم کہو ڈھونڈیں مسیحا اب کوئی
شاکر نگاہیں منتظر تو ہیں بہت
کر دے مِرے غم کا مداوا اب کوئی Naveed Shakir
لڑ پڑے ہیں ترے ہر طلب گار سے لڑ پڑے ہیں ترے ہر طلب گار سے
فرق پڑتا نہیں اب تو مقدار سے
جو کَبھی وہ ملے تو ملے پیار سے
عشق میں گر گئے اپنے معیار سے
تم اِسے عاشقی سمجھو یا بےکسی
گلیوں میں پھرتے ہیں بن کے بیزار سے
آنکھوں میں بھر کے کاجل چلے ہیں ابھی
اب بچے کون ان نظروں کے وار سے
کل تلک ساتھ تھے سائے کی طرح جو
آج محروم ہیں تیرے دیدار سے
Naveed Shakir
فرق پڑتا نہیں اب تو مقدار سے
جو کَبھی وہ ملے تو ملے پیار سے
عشق میں گر گئے اپنے معیار سے
تم اِسے عاشقی سمجھو یا بےکسی
گلیوں میں پھرتے ہیں بن کے بیزار سے
آنکھوں میں بھر کے کاجل چلے ہیں ابھی
اب بچے کون ان نظروں کے وار سے
کل تلک ساتھ تھے سائے کی طرح جو
آج محروم ہیں تیرے دیدار سے
Naveed Shakir
جس محبت پر عمر بھر ناز کیا جس محبت پر عمر بھر ناز کیا
آج اُس نے بھی نظر انداز کیا
اک محبت صرف مانگی آپ سے
یہ کیا تُو نے مرے ہمراز کیا
نکلے گی جو آہ دل سے درد میں
اب دبا دو گے مری آواز کیا
آج ہرجائی کہا اُس نے مجھے
عشق میں ہم کو ملے اعزاز کیا
آسمانوں میں کیوں ویرانی سی ہے
بھول بیٹھا ہر کوئی پرواز کیا
چھوڑ کر جانے لگا ہے اب کوئی
زندگی کا پھر کریں آغاز کیا Naveed Shakir
آج اُس نے بھی نظر انداز کیا
اک محبت صرف مانگی آپ سے
یہ کیا تُو نے مرے ہمراز کیا
نکلے گی جو آہ دل سے درد میں
اب دبا دو گے مری آواز کیا
آج ہرجائی کہا اُس نے مجھے
عشق میں ہم کو ملے اعزاز کیا
آسمانوں میں کیوں ویرانی سی ہے
بھول بیٹھا ہر کوئی پرواز کیا
چھوڑ کر جانے لگا ہے اب کوئی
زندگی کا پھر کریں آغاز کیا Naveed Shakir
جان میری جان کوئی اور ہے جان میری جان کوئی اور ہے
بات میری مان کوئی اور ہے
ہو گیا ہوں میں کسی کا ہم سفر
اب مری پہچان کوئی اور ہے
ناز تیرے ظلم پر ہے آج بھی
عشق کی یہ شان کوئی اور ہے
اب عمر بھر کی جدائی کس لئے
یہ ترا احسان کوئی اور ہے
جی رہا ہوں اب کسی کی زندگی
جسم میں انسان کوئی اور ہے
راس آئ کب رفاقت مر کے بھی
اُس کا قبرستان کوئی اور ہے Naveed Shakir
بات میری مان کوئی اور ہے
ہو گیا ہوں میں کسی کا ہم سفر
اب مری پہچان کوئی اور ہے
ناز تیرے ظلم پر ہے آج بھی
عشق کی یہ شان کوئی اور ہے
اب عمر بھر کی جدائی کس لئے
یہ ترا احسان کوئی اور ہے
جی رہا ہوں اب کسی کی زندگی
جسم میں انسان کوئی اور ہے
راس آئ کب رفاقت مر کے بھی
اُس کا قبرستان کوئی اور ہے Naveed Shakir
آج ملنے آؤ تم آج فرصت ہے ابھی آج ملنے آؤ تم آج فرصت ہے ابھی
آخری دیدار کی ایک حسرت ہے ابھی
اب خدا جانے کیا ہے چمک اُس آنکھ میں
یوں لگے دل میں کوئی تو شرارت ہے ابھی
جو کہے دنیا مجھے سچ یہی لگتا ہے بس
دور ہے لیکن اُسے بھی محبت ہے ابھی
جا چُکے ہیں چھوڑ کر جسم کے اعضا کئی
یاد کرنے کی مِرے پاس عادت ہے ابھی
روز مرتا ہوں مجھے ڈر کسی کا بھی نہیں
عشق سے بڑھ کر کوئی اور قیامت ہے ابھی Naveed Shakir
آخری دیدار کی ایک حسرت ہے ابھی
اب خدا جانے کیا ہے چمک اُس آنکھ میں
یوں لگے دل میں کوئی تو شرارت ہے ابھی
جو کہے دنیا مجھے سچ یہی لگتا ہے بس
دور ہے لیکن اُسے بھی محبت ہے ابھی
جا چُکے ہیں چھوڑ کر جسم کے اعضا کئی
یاد کرنے کی مِرے پاس عادت ہے ابھی
روز مرتا ہوں مجھے ڈر کسی کا بھی نہیں
عشق سے بڑھ کر کوئی اور قیامت ہے ابھی Naveed Shakir
زندگی راس آنے میں کچھ دیر ہے زندگی راس آنے میں کچھ دیر ہے
جشن کوئی منانے میں کچھ دیر ہے
جو ہوا سُو ہوا اب نہیں روکیں گے
تیرے دل کو چرانے میں کچھ دیر ہے
آپ آنا سکوں سے کہ جلدی نہیں
آج محفل سجانے میں کچھ دیر ہے
چاند تاروں ابھی تم کو بجھنا نہیں
شمع دل کی جلانے میں کچھ دیر ہے
لہر ہو گی یہاں پھولوں کی خوشبو کی
میرا محبوب آنے میں کچھ دیر ہے Naveed Shakir
جشن کوئی منانے میں کچھ دیر ہے
جو ہوا سُو ہوا اب نہیں روکیں گے
تیرے دل کو چرانے میں کچھ دیر ہے
آپ آنا سکوں سے کہ جلدی نہیں
آج محفل سجانے میں کچھ دیر ہے
چاند تاروں ابھی تم کو بجھنا نہیں
شمع دل کی جلانے میں کچھ دیر ہے
لہر ہو گی یہاں پھولوں کی خوشبو کی
میرا محبوب آنے میں کچھ دیر ہے Naveed Shakir
ابھی روٹھنا نہیں منایا نہ جائے گا ابھی روٹھنا نہیں منایا نہ جائے گا
جو مجبور آج ہوں تو آیا نہ جائے گا
کہاں اس قدر عذاب تھی زندگی مری
کوئی آنسو آنکھ میں سجایا نہ جائے گا
یوں تو درد سے بھری پڑی ہے یہ زندگی
کوئی غم بھی ہجر کا اٹھایا نہ جائے گا
ملے ساتھ ہی ترے خوشی ہر زمانے کی
بچھڑ کے کہیں بھی چین پایا نہ جائے گا
رکھو گا سنبھال کے عمر بھر ترے یہ خط
کوئی ایک خط بھی اب جلایا نہ جائے گا
محبت نہیں یہ کچھ دنوں کی فقط مری
ترا اک خیال بھی بھلایا نہ جائے گا
ترے در کے ہی رہے سوالی ابھی بھی ہوں
کہیں اور مجھ سے دل لگایا نہ جائے گا Naveed Shakir
جو مجبور آج ہوں تو آیا نہ جائے گا
کہاں اس قدر عذاب تھی زندگی مری
کوئی آنسو آنکھ میں سجایا نہ جائے گا
یوں تو درد سے بھری پڑی ہے یہ زندگی
کوئی غم بھی ہجر کا اٹھایا نہ جائے گا
ملے ساتھ ہی ترے خوشی ہر زمانے کی
بچھڑ کے کہیں بھی چین پایا نہ جائے گا
رکھو گا سنبھال کے عمر بھر ترے یہ خط
کوئی ایک خط بھی اب جلایا نہ جائے گا
محبت نہیں یہ کچھ دنوں کی فقط مری
ترا اک خیال بھی بھلایا نہ جائے گا
ترے در کے ہی رہے سوالی ابھی بھی ہوں
کہیں اور مجھ سے دل لگایا نہ جائے گا Naveed Shakir