گر راضی با رضا رہے تو گردشِ دوراں کا غم نہ رہے
غرق نہ ہو خواہشِ جہاں میں عبادت کا دم خم نہ رہے
بادِ مخالف کو مقدر کا ساماں نہ کر کہ شغفِ جہاں رہے
کشاں کشاں نہ کر من کے ساتھ کہ وہ کہیں کا نہ رہے
زیرکی سے قائل کر من کو رہِ بَست و کُشاد کی سمجھ رہے
اختیار میں رہے گر نفس حصولِ دو جہاں نا ممکن نہ رہے