آؤ کے ہاتھ میں رکھ دو اب ہاتھ
جیسے میرا تو خیال تھا کوئی
بھول جاؤ تجھے اک لمحہ دیکھ کر
جیسے میرا وہ خواب تھا کوئی
پاس تھا چشم ھا سے بہتہ رہا
جیسے میراوہ آذاب تھا کوئی
بکھری ہوئی آتی ہے نظر دُنیا مجھے
جیسے اس بستی میں نہیں تھا مکاں کوئی
بے آواز گرتے رہتے ہیں آنسو رُخسار پہ
ٹھہرنے والا آنکھوں میں نواب تھا کوئی
اب تو ایسے ہوتا ہے گمان نفیس
وہ عشق نہیں شاید کذاب تھا کوئی !!