آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا
بو سے لینے کے لئے کعبے میں پتھر رکھ دیا
ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجا رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
دیکھئے اب ٹھوکریں کھاتی ہے کس کس کی نگاہ
روزن دیوار میں ظالم نے پتھر رکھ دیا
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈیں اسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا
داغ کی شامت جو آئی اضطراب شوق میں
حال دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ دیا