آئینے میں خود کو پہچان نہیں پاتی ہوں
جو ہجرے غم ہیں ُاسے مٹا نہیں پاتی ہوں
جو بچھڑ گیا ہیں ہم سے موسم کی طرح
اس بھچڑے ساتھی کو ڈھونڈ نہیں پاتی ہوں
جاناں ! رکھتی ہوں خود کو مصروف کاموں میں
پر تیری یاد کو سینے سے ہٹا نہیں پاتی ہوں
کیا ! ہماری خطا تھی ، یا قسمت کی الجھ گئی ہوں
اس سوچ میں کہ خود کو سلجھا نہیں پاتی ہوں
کیا واقعی ہم حقدار تھے ان دکھوں کے لکی
کہ اب دعاؤں میں اپنے لیے ہاتھ اٹھا نہیں پاتی ہوں