آئے تھے تو بیمار کا حال تو پوچھتے
میں نے کیسے گزارے سال تو پوچھتے
ہمت ، حوصلہ جب ہار جاتی تھی
میری بے بسی کا ملال تو پوچھتے
ہر لمحہ جوابوں میں کھوئی رہتی تھی
وہ ان کہیں سوال تو پوچھتے
دل کیسے ہوا ُدکھ سے چور چور میرا
دنیا کے چلائے چال تو پوچھتے
میری راتیں سجدوں میں گزرتی تھی
میرے دن نڈھال تو پوچھتے
تمہاری قید نے مجھے رہا نہ کیا
اپنی نظروں کے جال تو پوچھتے
تمہارا نام لینے سے قیامت آئی تھی
مجھ پر ہوئے ستم کمال تو پوچھتے
میرا نام کسی نے رکھا تھا ُعروج
مجھ پر کیوں آئے زوال تو پوچھتے
میرے ہمدم سزا سناتے وقت
مجھ سے میرا اعمال تو پوچھتے