آتشِ دل بُجھا نہ سکا
یہ بھی اُس کو بتا نہ سکا
یُوں اچانک اُسے دیکھ کر
ہاتھ تک بھی ہلا نہ سکا
وہ حجاب و حیا کا وجود
اک نظر بھی اٹھا نہ سکا
میں تو خُوں تھوکتا رہ گیا
وہ پلٹ کر بلا نہ سکا
اُس سے کیا ہوا عہد بھی
آج تک میں نبھا نہ سکا
کس قدر ناز تھا حسن پر
یہ بھی تُجھ کو بچا نہ سکا
اس زمانے میں کھویا مگر
دل کہیں بھی لگا نہ سکا
فاصلے بیچ کےجانِ جاں
چاہ کر بھی مٹا نہ سکا
اور جُدائی کا دن آج تک
بُھول کر بھی بُھلا نہ سکا
خواب دیکھا محل کا مگر
جھونپڑی تک بنا نہ سکا
کوششوں سے ابھی تک جُنید
اِک دیا بھی جلا نہ سکا