آتش عشق سے کھیلو گے تو جل جاؤ گے
ابھی موقع ہے مری جان سنبھل جاؤ گے
تم نہ بدلو گے کبھی آج تو یہ کہتے ہو
سچ تو یہ ہے کہ کبھی تم بھی بدل جاؤگے
جو بھی آیا ہے کسی روز اسے جانا ہے
گر نہیں آج مری جان تو کل جاؤ گے
جتنی جلدی میں چلی جاؤں گی اچھا ہوگا
میں ذرا اور رکوں گی تو مچل جاؤ گے
درد لگتا ہے تمہیں بھاری تمہارا لیکن
میرے حالات سنو گے تو دہل جاؤ گے
یونہی ہر روز اگر ملتے رہے تم مجھ سے
لوگ کہتے ہیں مرے سانچے میں ڈھل جاؤ گے
یاد رکھو گے ہمیشہ جو سبق نیکی کا
ہو کے اس دنیا سے اک روز سپھل جاؤ گے
اپنے دامن کو گناہوں سے بچاؤ گے اگر
بن کے کیچڑ سے زمانے کے کنول جاؤ گے
شاعری پڑھ کے تمہاری مجھے یہ لگتا ہے
دے کے تم اک نیا اندازِ غزل جاؤ گے