گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رسُوا ہوا
غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا
میں تو پہنچا ٹھوکریں کھاتا ہوا
منزلوں پر خضر کا چرچا ہوا
حُسن کا چہرا بھی ہے اترا ہوا
آج اپنے غم کا اندازہ ہوا
غم سے نازک، ضبطِ غم کی بات تھی
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھیرا ہوا
یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے
اس جگہ اک میکدہ تھا کیا ہوا
رہتا ہے میخانے کے ہی آس پاس
شیخ بھی ہے آدمی پہنچا ہوا
اس طرح راہ بر نے لُوٹا کارواں
اے "فنا" راہزن کو بھی صدما ہوا