آج شور پس دیوار نے سونے نہ دیا
پھر ہمیں جشن کے آثار نے سونے نہ دیا
آپ کے حسن طرحدار نے سونے نہ دیا
کشش گیسوئے خمدار نے سونے نہ دیا
پھر بھڑک اٹھی ہیں چنگاریاں دل میں کیا کیا
پھر کسی آہ شرر بار نے سونے نہ دیا
رات بھر داغ دل اپنے ہی کئے ہم نے شمار
دشت میں رونق گلزار نے سونے نہ دیا
وہ تو سویا کئے آرام سے اپنے گھر میں
ہمیں ویرانی گھر بار نے سونے نہ دیا
آنکھ لگتی تو بھلا کیسے شب غم ، لگتی ؟
جب ہمیں چرخ ستمگار نے سونے نہ دیا
رات بھر دل میں رہا ماتم حسرت برپا
مرگ الفت کے عزادار نے سونے نہ دیا
آجکی رات کا رومی ! کروں کیا تم سے بیاں
پھر مرے دیدہ خونبار نے سونے نہ دیا