آج میں کس مقام پر کھڑی ہوں
جہاں پر میرے ساتھ کوئی اپنا نہیں
آنکھیں بند کر لوں یا کھلی رکھوں
جبکہ ان آنکھوں میں بچا کوئی سپنا نہیں
کیوں ویرانیاں بار بار مجھے گھیر لیتی ہیں
شاید محفلوں کا میرے بن مشکل کوئی جینا نہیں
یوں تو پی لیا ہر رنگ کا پانی
بناء غم کے تو ساقی پینا کوئی پینا نہیں
کہاں لے آئے آج آنکھ کے آنسو مجھے
راستے میں دریا ہے پر پاس کوئی سفینا نہیں
جلانے کو ُاسے میرا ہی گھر ملا تھا شاید
شمع کے رونے پر مگر آیا کوئی پروانا نہیں
میں روتی جا رہی ہوں اس کے سامنے مگر
مجھے روکنے کوکیا ُاس کے پاس کوئی بہانا نہیں