آج پھر اُن کی یادآئی ہے
آج پھر ہجر نے رلایا ہے
شب فرقت کے لمحےکیسے کٹیں
اُن کی یادوں نے دل جلایا ہے
دل مضطر ہےنیند کوسوں دور
غم جاناں نے رات بھر جگایا ہے
سوز الفت میں خود کو بھول گئے
جام میں آج کیا ملایا ہے؟
شوق دیدار میں ان انکھوں کو
اُن کی راہوں میں پھر بچھایا ہے
آج رب سے بھی گلے خوب کئے
دل کا ہر غم اُسے بتایا ہے
اُس کی بستی سے لوٹ کر آکاش
جب بھی آیا،ملول آیا ہے